ہمیں فالو کریں
Banner

دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ:

متحدہ عرب امارات دہشت گردی كے تمام شکلوں کی سخت ترین مذمت کرتا ہے اور دہشت گردی سے نمٹنے اور ان انتہا پسند نظریات کو شکست دینے کے اپنے عزم کی مسلسل تجدید کرتا ہے جو داعش، القاعدہ سمیت ظالم دہشت گرد گروہوں کے تشدد کو ہوا دیتے ہیں۔

دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خطرہ ایک روزمرہ کا چیلنج ہے جو ہمارے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کو خطرے میں ڈالتے ہوئے ہمارے خطے کی سلامتی اور استحکام کو نشانہ بناتا ہے۔

یہ ایک عالمی رجحان ہے جو سرحدوں، ثقافتوں اور مذاہب سے بالاتر ہے اور اس سے لڑنے کے لئے عالمی برادری کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ صرف فوجی نوعیت کی نہیں ہے کیونکہ دہشت گردی ایک پیچیدہ اور ہمہ جہت مصیبت ہے جس کے پھیلاؤ سے نمٹنے کے لئے خصوصی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ لہٰذا انتہا پسندی اور دہشت گردی کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں بنیاد پرستی کی جڑوں سے نمٹنے سے لے کر دہشت گرد بھرتیوں سے نمٹنے اور معاشرے میں افراد کی فعال شرکت کی حوصلہ افزائی تک ایک کثیر الجہتی نقطہ نظر کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

قانونی محاذ پر متحدہ عرب امارات نے دہشت گردی سے وابستہ سرگرمیوں کو جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کی ہے جس میں درج ذیل شامل ہیں:

  • دہشت گردی کے جرائم سے نمٹنے کے بارے میں 2014 کا وفاقی قانون نمبر 7
  • امتیازی سلوک اور نفرت سے نمٹنے کے بارے میں 2015 کا وفاقی فرمان قانون نمبر 2
  • سائبر کرائم ز سے متعلق 2012 کا وفاقی قانون 5
  • انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی اور غیر قانونی تنظیموں کی مالی معاونت سے نمٹنے سے متعلق 2018 کا وفاقی قانون نمبر 20
  • دہشت گردی کے جرائم سے نمٹنے سے متعلق 2014 کے وفاقی قانون نمبر 7 کی دفعات کے مطابق دہشت گرد اداروں کی مقامی فہرست جاری کرنا

دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف جنگ میں متحدہ عرب امارات نے قانون سازی کے ذریعے اینٹی منی لانڈرنگ سسٹم کو مضبوط بنانے کے لئے اہم کوششیں کی ہیں۔ مزید برآں متحدہ عرب امارات بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر دیگر فنانشل انٹیلی جنس یونٹس (ایف آئی یو) اور بین الاقوامی تنظیموں مثلا مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (میناایف اے ٹی ایف) کے ساتھ تعاون کرکے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے نیٹ ورک کی نگرانی اور خلل ڈالنے کے لیے کام کرتا ہے ۔

متحدہ عرب امارات طویل عرصے سے انتہا پسندنظریات کے خطرے کو تسلیم کرتا رہا ہے۔ اس طرح امارات نے سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ مذہبی اور ذرائع ابلاغ کے پلیٹ فارموں پر مذہبی مباحثے کو کم کرکے بنیاد پرستی کی روک تھام کے مختلف طریقے اپنائے ہیں۔ مذہبی تعلیم کا نصاب ہر سطح کے استعمال کے لئے احتیاط سے تیار کیا گیا ہے جس میں اسکول کے باضابطہ نظام میں اسلامی تعلیمی کلاسیں اور جنرل اتھارٹی آف اسلامک افیئرز اینڈ اوقاف کے زیر انتظام حفظ قرآن کے مراکز میں معیاری نصاب شامل ہیں۔

2012 میں متحدہ عرب امارات نے عالمی انسداد دہشت گردی فورم کے اشتراک سے ہدایہ سینٹر قائم کیا تھا۔ ہدایہ انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں تربیت، بات چیت، تحقیق اور تعاون کا بین الاقوامی مرکز ہے اور متحدہ عرب امارات عالمی انسداد دہشت گردی فورم کا بانی رکن ہے اور 2011 سے 2017 تک برطانیہ کے شانہ بشانہ پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف فورم کی ٹاسک فورس کا شریک چیئرمین تھا۔ اپنے قیام کے بعد سے ہداہ نےانتہا پسندی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے نئے طریقے وضع کرنے کے لئے کام کیا ہے، خاص طور پر کمیونٹی کی شرکت میں اضافہ، بنیاد پرستی کا مقابلہ کرنے کے اقدامات کی تشکیل اور خطرے سے دوچار آبادیوں کو دستیاب تعلیمی مواقع میں اضافہ۔

خاص طور پر سوشل میڈیا پر انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے جاری کوششوں کے حصے کے طور پر متحدہ عرب امارات اور امریکہ نے مارچ 2015 میں صواب سینٹر قائم کیا تھا جس میں ایک انٹرایکٹو آن لائن پیغام رسانی کا اقدام قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں داعش کے خلاف عالمی اتحاد کی کوششوں کی حمایت کرنا تھا۔ مرکز نے اپنی طاقت کی بنیاد پر دنیا بھر کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کی آواز دی ہے جو دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے فروغ دیئے گئے جھوٹے اور گمراہ کن خیالات کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ مرکز مذہبی غلط فہمیوں کی شناخت اور ان کی اصلاح کے لئے سوشل میڈیا اور آن لائن رابطوں کی طاقت کو بروئے کار لانے کے لئے کام کرتا ہے۔

متحدہ عرب امارات انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لئے رواداری کو فروغ دینے کی کوششیں کر رہا ہے۔ رواداری کیلئے ایک وزیر کو پہلی بار ٢٠١٦ میں متحدہ عرب امارات اور بیرون ملک رواداری اور پرامن بقائے باہمی کی اقدار کو پھیلانے کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ دبئی میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ٹالرنس کی بنیاد اس لئے رکھی گئی تاکہ ملک بھر میں رواداری کا جذبہ پیدا کیا جا سکے اورعدم رواداری، انتہا پسندی، بند ذہنیت اور امتیازیسلوک کی سخت مخالفت میں کھلے پن اور مہذب مکالمے کے کلچر کو فروغ دیا جا سکے۔ فروری 2019 میں متحدہ عرب امارات نے انسانی بھائی چارے کے اجلاس کی میزبانی کی جس کا مقصد مختلف عقائد اور ثقافتوں کے درمیان بقائے باہمی پر مکالمے کو فروغ دینا اور انتہا پسندی کو چیلنج کرتے ہوئے اوراختلافات کے احترام کو فروغ دیتے ہوئے دنیا بھر میں ان اقدار کو فروغ دینے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ کانفرنس میں شرکت کے لئے متحدہ عرب امارات کے مشترکہ دورے کے دوران انسانی بھائی چارے برائے عالمی امن اور ایک ساتھ رہنے کی دستاویز تیار کی گئی جس پر الازہر کے امام اعظم ڈاکٹر احمد الطیب اور کیتھولک چرچ کے سربراہ تقدس مآب پوپ فرانسس نے دستخط کیے۔ متحدہ عرب امارات نے ابراہیمی خاندان كا گھر کی تعمیر کا بھی اعلان کیا جس میں ایک مسجد، ایک چرچ اور ایک عبادت خانہ شامل ہوگا۔ اس کا مقصد پرامن بقائے باہمی اور بین المذاہب مکالمے کی اہمیت پر دنیا کو ایک مربوط پیغام دینا ہے جس سے انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کو تشدد اور نفرت پھیلانے کے لئے مذہبی اختلافات کا فائدہ اٹھانے سے روکا جا سکےگا۔.

ٹول ٹپ