ہمیں فالو کریں
Banner

وزیر خارجہ وبین الاقوامی تعاون جناب شیخ عبداللہ بن زاید آل نھیان كا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس سے خطاب

پير 10/06/2019

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جناب صدر،

سب سے پہلے میں آپ کو اس سیشن کی صدارت سنبھالنے پر مبارکباد دیتا ہوں ، اور مسز ماریہ فرنانڈا ایسپینوسا کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے گذشتہ سیشن کے کام کے شاندار انتظام كیا ، جس نے خواتین كی قیادت کے عہدے سنبھالتے وقت حاصل كردہ کامیابیوں کو اجاگر کیا ۔

اسی طرح میں بین الاقوامی خلائی سٹیشن کا دورہ کرنے والے پہلے اماراتی خلا باز ہزاع المنصوری کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اس بڑے قدم کے ساتھ ، متحدہ عرب امارات ایک نئے دور کا آغاز کرے گا جس میں وہ دنیا کے ممالک کے ساتھ خلائی سائنس میں سرمایہ کاری اور سائنس ، ٹیکنالوجی اور روشن خیالی کی دنیا میں ایک نئی نسل کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالے گا۔


جناب صدر،،

2019 میں میرے ملک كے "رواداری کا سال" مناتے ہوئے پوپ فرانسس اور امام احمد الطیب نے ابو ظہبی میں انسانی برادرانہ دستاویز پر دستخط کیے ، جو رواداری اور بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے امن کا ایک تاریخی پیغام ہے۔ محفوظ معاشروں کی تعمیر شدت پسندی سے پیدا ہونے والے تناؤ سے نمٹنے کے لیے عزم ، ٹھوس اقدامات اور کوششوں كا تقاضا كرتی ہے۔

متحدہ عرب امارات ، جس نے یمن ، لیبیا ، سوڈان ، شام اور فلسطین سمیت مشرق وسطیٰ کے بحرانوں کے سیاسی حل تک پہنچنے كیلئے علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں میں حصہ لیا ہے ، کا خیال ہے کہ کثیرالجہتی کارروائی کو مضبوط کرنا بحرانوں كو کم کرنے اور بین الاقوامی امن اور سلامتی کے حصول کے لیے سرحد پار چیلنجز جیسے انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ تاہم ، کثیر الجہتی کارروائی نئے بحرانوں کو حل یا روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے ، جس کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی ناکامی کی وجوہات اور ان کی اثرات بڑھانے کے طریقوں کو تلاش کرنا ضروری ہے ، یہی وہ مقصد ہی جس کے لیے یہ تنظیم قائم کی گئی تھی

ہماری اجتماعی کوششوں نے اکیسویں صدی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں خاص طور پر پائیدار ترقی کے شعبوں میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بدقسمتی سے ، علاقائی اور بین الاقوامی استحکام قائم کرنے کی کوششیں ، خاص طور پر ہمارے خطے میں ناکام ہو گئی ہیں۔ آج ہم قومی سلامتی کی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں جس میں اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت ممکن ہو گئی ہے۔ تنازعات کے تسلسل اور نئے بحرانوں کے ظہور کے ساتھ ، ہم شدت پسند اور دہشت گرد گروہوں کا ظہور دیکھتے ہیں ، جو سركش ریاستوں سے تعاون حاصل کرکے اپنی صلاحیتوں کو ترقی دے رہے ہیں جن کا مقصد خطے میں عدم استحکام اور تسلط کو بڑھانا ہے۔

دہشت گرد گروہ جیسے: داعش ، اخوان ، حزب اللہ ، القاعدہ ، اور حوثی اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری فنڈنگ اور ہتھیار حاصل کرنے میں کامیاب رہے جس سے بحرانوں میں اضافہ ہوا۔

برادر مملكت سعودی عرب میں دہشت گردانہ حملوں كا بڑھنا اور اس کی شہری اور اہم تنصیبات پر حملوں کا تسلسل ، جن میں سے تازہ ترین آرامکو کی تنصیبات پر كھلا حملہ ہے ، نہ صرف مملکت اور خطے کی سلامتی کو متاثر کرتا ہے ، بلکہ عالمی معیشت کے استحکام کو بھی متاثر کرتا ہے۔

یہاں، ہم عقل وخرد کی ضرورت ، بحری راستوں اور توانائی کی حفاظت ، اور خودمختاری کے احترام اور ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی بنیاد پر پائیدار حل کی تلاش پر زور دیتے ہیں۔

جناب صدر،

بین الاقوامی برادری کی کوششوں کے باوجود ، یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ کثیرالجہتی عمل گزشتہ دہائیوں کے دوران پیدا ہونے والے چیلنجوں کے مقابلہ كرنے میں كامیاب نہیں ہوا۔ شاید بنیادی وجہ بین الاقوامی قانون اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے کمزور نفاذ ہے ، اس کے علاوہ سیاسی حل کی حمایت میں علاقائی تنظیموں اور خطے کے ممالک کے کردار کو نظر انداز کرنا۔ یہ درست ہے کہ امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے بین الاقوامی میکانزم موجود ہیں ، لیکن بعض ممالک کی عداوتی پالیسیوں کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے میں ناکامی نے بین الاقوامی کوششوں کو متاثر کیا ہے۔

اگرچہ امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے مشترکہ اقدامات کرنے کی ضرورت پر بین الاقوامی اتفاق رائے پایا جاتا ہے ، جیسا کہ ایران جوہری معاہدے پر دستخط کے ذریعے ایران کے جوہری عزائم کو روکنے کی ضرورت پر تھی لیكن یہ ایران کے رویے کو درست کرنے اور آگے بڑھانے کی مطلوبہ توقعات كو حاصل نہ كرسكی۔ بہتر تھا كہ بین الاقوامی قانون اور اچھے ہمسائیگی کے اصولوں کی پاسداری کرنا۔ ایٹمی معاہدے میں خطے کے ممالک کی رائے کو مدنظر ركھا جاتا جو اس اہم خطے کی تاریخ سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ اس معاہدے میں ایران کے دیگر تمام رویوں جیسے کہ ملکوں کے اندرونی معاملات میں اس کی مداخلت ، اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی ترقی اور دہشت گرد گروہوں کو اسلحے سے متعلق ہونا چاہیے تھا ، کیونکہ ہم ایک ایسے ملک کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو اپنا انقلاب برآمد کرنا چاہتا ہے۔ .

ہمارے پاس ایک موقع ہے ، بین الاقوامی برادری کے تعاون سے چلنے والے سیاسی اقدام کے ذریعے ، پائیدار حل تک پہنچنے کے لیے جو خطے کے مفاد میں ہیں اور چار محوروں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں:

پہلا: بین الاقوامی قانون اور ریاستوں کے درمیان تعلقات کے خاتمے کو روکنے کے لیے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو بنیادی ستون کے طور پر نافذ کرنا۔ اس کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے ، ہمیں ان کی قانونی ذمہ داریوں کو نافذ کرنے کے لیے ریاستوں کی صلاحیتوں كو سپورٹ کرنا چاہیے ، اور ان ریاستوں کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے جو ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

ریاستوں کا ان کی قانونی ذمہ داریوں اور اچھے ہمسائیگی کے اصولوں کا احترام متحدہ عرب امارات کا بنیادی مطالبہ رہے گا ، جس نے اڑتالیس سالوں سے اپنے تین جزیروں: طنب الكبري طنب الصغری اور ابو موسی پر اپنے جائز حق اور خودمختاری کا دعویٰ کرنا بند نہیں کیا، جس پر ایران نے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے قبضہ کیا ، اس حقیقت کے باوجود کہ تمام تاریخی دستاویزات متحدہ عرب امارات کی ملکیت اور قدیم زمانے سے عرب حکمرانی کے ماتحت ہونے کی تصدیق کرتی ہیں۔

ہم اس سٹیج سے متحدہ عرب امارات کی مضبوط موقف اور جزائر پر اپنی حاکمیت کے حوالے سے جائز حق کی تاكید کرتے ہیں، اور ہم ایران سے جزیرے كے مالکان کو حقوق واپس کرنے کے مطالبے کو كبھی نہیں چھوڑیں گے۔

میرے ملک نے ایران سے براہ راست مذاکرات یا بین الاقوامی عدالت انصاف کے ذریعے مسئلے کے پرامن حل کا مطالبہ کیا ہے ، تاہم ان مطالبات کا جواب نہیں دیا گیا۔

دوسرا: علاقائی تنظیموں کو علاقائی کشیدگی سے نمٹنے اور سلامتی اور استحکام کے حصول میں زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرنے کے قابل بنانا۔ اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ یہ تنظیمیں اپنے ممبروں سے متعلقہ مسائل کے موثر حل تیار کرنے کے اہل ہیں۔ اس سال مملکت سعودی عرب کے زیر اہتمام خلیجی ، عرب اور اسلامی سربراہی کانفرنس خطے کی نازک سیکیورٹی حالات سے نمٹنے کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی مواقف کو مربوط کرنے کا ایک کامیاب نمونہ تھا۔

ہمیں امید ہے کہ اقوام متحدہ علاقائی مسائل پر بات چیت کرتے وقت ان تنظیموں کے ساتھ اپنی مشاورت بڑھائے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ افریقہ میں امن قائم کرنے اور ثالثی کی کارروائیوں کی حمایت میں افریقی یونین کا کردار ایک کامیاب ماڈل ہے ، جس کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں اور اس کی اقتدا پر زور دیتے ہیں۔

تیسرا: سیاسی عمل کو مضبوط بنانا اور کشیدگی کو كم کرنے اور عوام کی جائز خواہشات کو پورا کرنے کے لیے بحرانوں کو حل کرنے میں اسے زیادہ موثر بنانا۔ اس کے لیے ریاستوں کے درمیان اعتماد بڑھانا اور ثالثی کی کوششوں کو مضبوط کرنا ضروری ہے - بشمول اقوام متحدہ کے مندوبین کے۔ ان کوششوں کو کامیاب بنانے کے لیے ، فریقین کو شفافیت اور تعاون کے ایک وسیع تصور پر عمل کرنا چاہیے۔

یہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات سیاسی کوششوں کو آگے بڑھنے اور بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ایک بنیادی آپشن کے طور پر بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے ۔ اسی لئے جب میرا ملك یمن كے شرعی حكومت كے مدد كے اتحاد میں شریك ہور تو یمن كی شرعی حكومت كے كردار دلانے اور انقلابیوں كے تسلط كو رد كرنے اور سیاسی راستے کی حمایت کی جو استحکام اور امن کی طرف جاتا ہے۔ حوثیوں کی جانب سے کی جانے والی خلاف ورزیوں کے باوجود میرا ملک امن کے حصول کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔

اسی طرح میرا ملک یقین رکھتا ہے کہ سیاسی راستہ خطے کے مسائل کو حل کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اس تناظر میں ، ہم اقوام متحدہ ، عالمی برادری اور دوست ممالک کی کوششوں کو سراہتے ہیں ، اور ہم مراکش صحارا کے مسئلے کے سیاسی حل کی حمایت میں سیکرٹری جنرل کے کردار کا خیرمقدم کرتے ہیں ، اور ہم مملکت مراکش کی مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے میں کوششوں کو سراہتے ہیں

شاید پچھلی دہائی کے دوران عرب دنیا کو گھیرے ہوئے افراتفری کے حالات ہمیں سیاسی حل میں زیادہ دلچسپی دیتے ہیں ، اور قومی ریاستوں اور عوام کی سلامتی کے لیے استحکام کی اہمیت زیادہ بڑھاتے ہیں

فلسطین کا مسئلہ عربوں کا مرکزی مسئلہ رہے گا۔ ایک منصفانہ ، جامع اور پائیدار حل کے بغیر خطے میں استحکام قائم کرنا ممکن نہیں ہے جوكہ فلسطینی عوام کو اپنی آزاد ریاست قائم کرنے کے قابل بنائے جسكی دار الحكومت القدس ہو ۔ اس کے علاوہ قابض طاقت کی جانب سے فلسطینیوں کی طرف کی جانے والی خلاف ورزیاں اور القدس شہر میں نئے حقائق کی تخلیق انتہا پسند گروہوں کو برادر فلسطینی عوام کے دکھوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع دے گی۔

آخری: قوموں كو بنانے كیلئے ترقی اور سرمایہ کاری پر توجہ ، جوكہ تنازعات کے بعد کے مراحل میں ملکوں کی تعمیر نو سے شروع ہوتا ہے، اپنے قومی اداروں کی حمایت اور ان میں قانون کی حکمرانی کو مضبوط کرنا۔ بڑے پیمانے پر انتہا پسندی کا مقابلہ کیا جانا چاہیے اور رواداری اور شمولیت کی اقدار کو پھیلانا چاہیے جبکہ ان کوششوں میں خواتین اور نوجوانوں کی شرکت کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ سب کے لیے ایک روشن مستقبل بنایا جائے۔

ہمیں جنگوں اور قدرتی آفات کی وجہ سے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے دکھوں کو نہیں بھولنا چاہیے ، جن کے بوجھ اور تكلیفوں کو کم کرنے کے لیے انسانی ہمدردی کی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں ، میرا ملک تمام نسلوں اور مذاہب کے متاثرہ لوگوں کی مدد کرکے امن کا پیغام پھیلاتا رہتا ہے۔ یمن کے لوگوں کے بڑھتے ہوئے بحران کا مقابلہ كرنے کے لیے حوثیوں کی جانب سے امداد کی ترسیل میں رکاوٹ یہاں تک کہ امداد كو اپنی مجرمانہ کارروائیوں کے لیے چوری کرنے كی باجود اپنی انسانی اور ترقیاتی امداد کو تیز كرتا ہے ۔

جناب صدر،،

خطہ ایک طویل عرصے سے غیر مستحکم رہا ہے ، لیکن محنت اور یکجہتی سے بین الاقوامی کوششوں سے استحکام حاصل کیا جائے گا۔ اس لیے ہمیں یقین ہے کہ آنے والے سال خطے کے لیے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوں گے ، خطہ عالمی معاشی اور ثقافتی مرکز جہاں جدید ٹیکنالوجی ، مستقبل کے علوم ، قابل تجدید توانائی اور مصنوعی ذہانت كی مركز ہوگی۔ ایکسپو 2020 کی میزبانی کرتے ہوئے ، ہم بیرونی خلائی منصوبے شروع کرنے اور نوجوانوں کے لیے ایک نیا ماحول بنانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں وہ ایک روشن مستقبل اور کھلے ذہن کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

بطور فرد ، حکومت اور عوام ، ہمارے پاس اختیار ہے کہ یا تو ایک "نئی دہائی" شروع کریں جس میں ہم خطے اور دنیا کا مستقبل بچائیں، یا ہم اسے تباہ کن انتہا پسندانہ خیالات اور دہشت گردوں کے کنٹرول میں چھوڑ دیں۔ جس کا ہم اپنی تمام تر توانائی سے مقابلہ کرتے رہیں گے۔

آپ سب کا شکریہ ..

ٹول ٹپ